Ho Mere Ishq Par Khuda Meherbaan Romantic Novel By Hifza Javed
Ho Mere Ishq Par Khuda Meherbaan Romantic Novel By Hifza Javed
آج سچ میں نور ایک بیوہ تھی۔مگر فرق اتنا تھا کہ اب اس کے پاس اس کے جینے کا سہارا تھا اس کا بیٹا۔نور کا چھ ماہ کا بیٹا اس محل کی جان تھا۔ریحانہ کمرے میں آئی۔
"ریحانہ میرا بیٹا کہاں ہے۔"
ریحانہ بلکل خاموش تھی۔نور نے سفید ڈوپٹے کی اوٹ سے ریحانہ کو دیکھا جو رو رہی تھی شاید۔
"میرا بیٹا کہاں ہے ریحانہ۔"
نور کی آواز بہت تیز تھی۔پچھلے کچھ ماہ سے یہی کمرہ اس کا مسکن تھا۔یہی سفید لباس اور چادر اس کا لباس تھا۔
"سردارنی وہ میر سرادر۔۔۔۔۔"
"کیا میر سردار ۔۔۔۔"
نور فورا سے اٹھ گئی۔
"وہ انہوں نے آپ کا بیٹا لے لیا ہے۔۔۔۔"
نور کے دماغ کی رگیں پھٹنے لگی یہ سن کر۔اس حویلی نے اسے دھوکے پر دھوکے دیئے تھے۔اپنے بیٹے کی خود غرض محبت کے پیچھے اسے قربان کیا تھا۔نور کا رخ باہر کی طرف تھا۔باہر سب ہی بیٹھے ہوئے تھے تقریبا۔سامنے ہی وہ شخص تھا جس سے اسے دنیا میں سب سے زیادہ نفرت تھی۔یہی وہ انسان تھا جو اس کی ہر بربادی کا ذمہ دار تھا۔اپنے بیٹے اسد کو اس شخص کی گود میں دیکھ کر نور کو آگ لگ گئی تھی۔یہ فورا سے اس شخص کے سامنے آئی۔
"مجھے میرا بیٹا دو۔۔۔۔۔"
نور نے اپنا بیٹا اس کی گود سے لینا چاہا مگر اس شخص نے اسد کو پاس کھڑے عدیل کو دیا اور اسے باہر جانے کا کہہ دیا۔احمد خان اور شاویز نظریں جھکانے بیٹھے تھے۔
"وہ تمہارا نہیں اس خاندان کا بیٹا ہے۔تمہیں اب وہ کسی صورت نہیں ملے گا۔"
"میں سردار بیگم ہوں میر سردار کی۔"
"بیوہ ہو تم اس شخص کی جس نے تمہیں دھوکا دیا ہے۔مجھ سے میرا سب کچھ چھینا ہے۔خیر ان سب باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔یہ خاندان اس کا سب کچھ اب میرا ہے تو پچھلے سرادر کی بیوی سے شادی بھی میں ہی کروں گا۔"
نور نے آنکھوں سے آنسو صاف کیئے۔
"میں سردار بیگم ہوں۔تم مجھ سے شادی نہیں کرسکتے۔"
مقابل اس بات پر بہت زور سے ہنسا۔
"جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس کے مطابق کبیر خان کبھی اس خاندان کا سردار نہیں تھا بلکہ میں اس خاندان کا وارث ہوں۔اس لیئے اس کی بیوی سرادر بیگم نہیں ہوسکتی۔تمہاری شادی ہوگی مگر مجھ سے۔یہ ہمارا اصول ہے ہم اپنے خاندان کے خون کو کہیں جانے نہیں دیتے۔شادی میں نے کرنی ہی ہے تو تم سے کیوں نہیں۔"
"نہیں کروں گی تم سے شادی میں۔یہ سفید چادر منظور ہے مجھے۔بابا آپ کیوں نہیں بولتے۔اس خاندان نے مجھے برباد ہی تو کیا ہے۔پہلے آپ کے بیٹے کی خود غرض محبت نے اور اب اس شخص کی خود غرضی نے۔"
"ٹھیک ہے پھر نور۔تم اس حویلی سے جاسکتی ہو۔تمہارا بیٹا میرے پاس رہے گا۔وہ اس حویلی کا بیٹا ہے تو میرا بھی کچھ لگتا ہے۔"
"نہیں وہ میرا بیٹا ہے۔مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا اسے۔"
سلمان کی ہنسی بہت خوفناک تھی۔
"ٹھیک ہے تو پھر اپنے بیٹے کو لے لینا مجھ سے آکر جب نکاح کے لیئے تیار ہو ورنہ اس محل کے دروازے تم پر بند ہیں۔"
نور کو ریحانہ نے پکڑ لیا جو میر سرادر کے پیچھے بھاگی تھی۔
"میرا بیٹا بہت چھوٹا ہے۔اسے بھوک لگی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔میری گود کو خالی مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی انسان ہوں مجھے مت ستائو۔۔۔۔۔۔۔میرا بچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔"
ریحانہ نے نڈھال ہوتی نور کو کمرے میں لے جانے کے لیئے انعم بھابھی کی مدد کی جو خود بھی رو رہی تھی۔اس خاندان میں آج ایسی بے بسی پہلی بار کسی عورت کے لیئے آئی تھی اور وہ نور تھی جس کی قسمت ہمیشہ اس کے ساتھ کھیل ہی کھیل جاتی تھی۔
ان سب ویب،بلاگ،یوٹیوب چینل اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہےکہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ کتاب نگری اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہونگے۔