Raah E Yaar Jab Mile Novel by Iram Raheel Episode 11
Raah E Yaar Jab Mile Novel by Iram Raheel Episode 11
وہ کبھی اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کو دیکھتی کبھی اسے جو ٹارچ کی روشنی میں راستہ دیکھتے ہوئے اس کے آگے آگے چل رہا تھا۔وہ بے دھیانی میں اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی اور اپنے بچ جانے کا شکر ادا کر رہی تھی کہ تبھی اس کا پاؤں صحیح جگہ پر نہ رکھا گیا اور وہ لڑکھڑا کر پھر سے گرنے والی تھی۔کہ فرزام نے دفعتاً اسے پلٹ کر تھاما تھا اور گرنے سے بچایا تھا۔
"دھیان سے...." وہ اسے تھامے کہہ رہا تھا۔اسیرہ کا دل کیا کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے سینے سے لپٹ کر روئے۔اور وہ اسے اپنی آغوش میں چھپا لے۔اور وہ سب کچھ بھول جائے۔
فرزام نے اس کے آنسو صاف کیے جو مسلسل بہہ رہے تھے۔
"کچھ نہیں ہوتا میں ہوں نہ...." وہ دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے اسے تسلی دے رہا تھا۔اسے رونے سے منع کر رہا تھا۔مسلسل بہتے اس کے آنسوؤں کو صاف کر رہا تھا۔
"یہاں بیٹھو...." فرزام نے اسے ایک پتھر پر بٹھایا۔اسیرہ خاموشی سے بیٹھ گئی تو وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔
"تم بہت بہادر ہو.... کمزور اور روتی ہوئی
بلکل اچھی نہیں لگتی...."وہ اس کا چہرہ تھامے کہہ رہا تھا۔اسیرہ میں اس وقت کچھ کہنے بولنے کی ہمت نہیں تھی۔وہ آج اس کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر لڑا تھا۔ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر وہ اس تک پہنچا تھا۔وہی تو تھا جو اتنے سارے لوگوں میں اس تک پہنچا تھا۔اس نے ہمت نہیں ہاری تھی اور اسیرہ کو ڈھونڈ لیا تھا۔
فرزام ان لمحوں میں اسیرہ کو بہت سے انجانے احساسات سے روشناس کروا گیا تھا۔جانے کہاں سے ڈھیروں جگنو آئے اور ان لمحات کو روشن کر گئے۔فرزام کی بولتی نگاہوں میں اور دل کی دھڑکن میں صرف اسیرہ ہی تو تھی۔اسیرہ اسے دیکھ رہی تھی اور وہ اسیرہ کو.... کچھ کہہ بنا بھی ان لمحات میں بہت سے راز کھل رہے تھے۔فرزام جذبات کی رو میں بہا تھا۔اور اسیرہ کا چہرہ مزید قریب کر گیا۔اسیرہ کے سرد چہرے پر فرزام کی گرم سانسیں پڑیں تھیں۔
بات سوئمنگ پول سے شروع ہو کر اس جنگل تک پہنچ چکی تھی۔
"اسیرہ... آئی لو یو...." فرزام کو لگا وہ دنیا کا مشکل ترین کام کر گیا تھا۔ان لمحوں میں لگا کہ وہ اپنی محبت کا اظہار صرف زبان سے ہی نہیں خاصے بےباک طریقے سے کرنا چاہ رہا تھا۔اس کا ارادہ بھانپ کر اسیرہ کا دل ایسے دھڑکا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔وہ لاکھ چاہ کر بھی فرزام کے ہاتھ نہ جھٹک سکی۔انہی ہاتھوں نے ابھی کچھ دیر پہلے اسے بچایا تھا۔وہ کیسے جھٹک دیتی۔اس میں فرزام کو روکنے کی ہمت نہیں تھی۔لیکن اس فسوں خیزی میں بھی وہ شاید ہوش میں تھا۔جبھی اسیرہ کے ماتھے کو لبوں سے چھو گیا تھا۔اور اسے اپنے سینے میں سمو گیا۔اس کے مضبوط سینے سے لگی اسیرہ کو لگا وہ کسی اور ہی دنیا میں چلی گئی ہو۔جہاں وہ اسیرہ نہیں تھی اور فرزام، فرزام نہیں تھا۔
کاش وہ فلموں کی طرح اس جنگل میں پہلی بار ملے ہوتے۔تو سب کچھ اتنا پچیدہ اور الجھا ہوا نہ ہوتا۔
کاش.....
"مجھ سے شادی کرو گی...." فرزام نے اسے خود سے الگ کر کے پوچھا تھا۔جو بھی وہ کہہ رہا تھا اسیرہ کو اس سے کسی چیز کی امید نہیں تھی۔اور اس آخری بات کی تو بلکل بھی نہیں تھی۔ان دونوں کے درمیان وہ سب دیواریں جو شروع سے حائل تھیں وہ ٹوٹیں کب تھیں۔جو وہ یہ سب کہہ رہا تھا۔شاید وہ ہوش میں نہیں تھا۔شاید وہ اسے کوئی اور لڑکی سمجھ رہا تھا۔
"میں اسیرہ ہوں...." اسیرہ نے اسے یاد دلانہ چاہا۔وہ وہی اسیرہ تھی جسے کبھی اس نے پلٹ کر دیکھ تک نہیں تھا۔وہی معمولی سی اسیرہ....
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
ان سب ویب،بلاگ،یوٹیوب چینل اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہےکہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ کتاب نگری اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہونگے۔
Copyright reserved by Kitab Nagri
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئےامیجز پرکلک کریں 👇👇👇